ایمیزون جنگل کے جانور - Animals of Amazon Jungle
یہ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے۔ قدرتی مناظر ہو یا ان میں چھپے حقائق سب کو دیکھنے اور سننے کے بعد عقل دنگ رہ جاتی ہے اور شاید اسی وجہ سے ہمیں قرآن مجید میں بھی جابجا قدرت پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ انسان چاہے جتنی مرضی ترقی کر لے لیکن قدرت کے شاہکاروں کے آگے اس کی ترقی ماند پڑ جاتی ہے اور یہی وجہ انسان کو ایسے عجائبات کی کھوج میں لگائے رہتی ہے جس سے انسان نہ واقف ہے۔
آج کے اس آرٹیکل میں ایمیزون کے جنگل کے کچھ عجیب و غریب حقائق کے بارے میں پڑھیں گے جنہیں شاید آپ اس سے پہلے کبھی نہ جانتے ہوں۔ جنوبی امریکہ میں موجود ایمازون ایک جنگل ہے۔ یہ ایک برساتی جنگل ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے اور یہ دریائے ایمیزون اور اس کے معاون دریاؤں کے اردگرد پھیلا ہوا ہے۔ اس کا رقبہ 25 لاکھ مربع میل یعنی کے پورے آسٹریلیا کے برابر ہے۔ اس کے بہتے ہوئے دریا کا نظارہ دو سو میل کی دوری سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
اس جنگل کی بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں 400 سے 500 قبائل رہائش پذیر ہیں اور تقریبا ایسے 50 قبائل ہے ان میں جن کا باہر کی دنیا سے کچھ بھی رابطہ ممکن نہیں یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ آج کل کی انسانی دنیا سے بالکل ناواقف ہے۔ یہ لوگ تیر کمان سے مچھلی پکڑتے اور بندروں کو اپنی غذا کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے زرخیز آب و ہوا میں بہت زیادہ خطرناک قسم کے جانور بھی پائے جاتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ایمازون کی مکڑیاں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ وہ پرندوں کو پکڑ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان جنگلات میں بہت بڑی بڑی تتیلیاں اور پوری دنیا کے پرندوں کی آدھی اقسام صرف اس جنگل میں ہی پائی جاتی ہے۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ اس جنگل میں 13 ہزار پرندوں 40000 پودوں اور 3000 مچھلیوں کے اقسام کے علاوہ چار سو تین قسم کے میملز اور دو سے پانچ ملین حشرات الارض بھی پائے جاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ایمزون کو خوفناک مخلوق اور حیرت انگیز چیزوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے۔ اینا کونڈا جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا سانپ مانا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی عام طور پر پانچ سے چھ میٹر تک ہو سکتی ہے لیکن بعض ایناکونڈا دس پیٹر کی لمبائی سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں۔ اب تک کا سب سے لمبا ایناکونڈا کولمبیا میں پکڑا گیا جس کی لمبائی 11 سے 12 میٹر کے درمیان تھی اور یہ سانپوں کی ایک قسم اجگر سے بھی بہت زیادہ موٹا تھا۔ بڑے انسانوں کا تو پتہ نہیں لیکن جن لوگوں نے اینا کونڈا کو دیکھا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ والے سانپ ایک بچے کو باآسانی نگل سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بہت زیادہ کم تعداد میں پائے جاتے ہیں جیسے کہ آٹے میں نمک ۔ امریکہ کے ایک سابق صدر نے بھی یہ کہا تھا کہ اگر کوئی ان کو دس میٹر یا اس سے لمبا سانپ لا کر دیتے ہیں تو وہ اس کو پانچ ہزار ڈالر کا انعام دیں گے ۔ لیکن اتنا بڑا سانپ کوئی بھی نہ لا سکا ۔ ایسا اس لئے کیونکہ اتنی بڑی لمبائی کے سانپ ڈھونڈنا بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ تعداد میں بہت زیادہ کم ہوتے ہیں۔ یہ سانپ تقریباً 60 ملین سال پہلے کولمبیا کے برساتی جنگلوں میں پایا جاتا تھا۔ سبز اناکونڈا جس کو دنیا کا سب سے بڑا سانپ کہا جاتا ہے اس کا وزن ڈھائی سو کلو کے قریب ہوتا ہے۔ جب کہ پائیتھن جس کو لمبا ترین سانپ کہا جاتا ہے اس کی لمبائی 32فٹ تک ہو سکتی ہے ۔
زمین پر موجود اگر کوئی سب سے زیادہ چیخنے چلانے اور آوازیں نکالنے کے لیے مشہور ہے تو وہ جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا بندر ہے۔ سرخ رنگ کے ان بندروں کو ان کی اس خصوصیت کی بنا پر چیخنے چلانے والا بندر کہا جاتا ہے۔ یہ والے بندر تقریبا گروپوں کی شکل میں رہتے ہیں اور ہر گروپ دس سے پندرہ بندروں پر شامل ہوتا ہے اور ہر گروپ نے اپنے لئے ایک علاقہ مخصوص کیا ہوتا ہے۔ اگر ایک گروپ کا بندر اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے بندروں کے علاقے میں چلا جائے تو وہ دوسرے علاقے کے بندر چیخ چیخ کے اس کو اس علاقے سے باہر نکال دیتے ہیں۔ یہ اتنے زور سے چیختے ہیں کہ پانچ کلومیٹر تک ان کی آوازیں باآسانی سنی جا سکتی ہیں۔
ایمازون کے کے انہی جنگلات میں چمگادڑوں کی ایک ایسی خونخوار قسم پائی جاتی ہے جو کہ سوئے ہوئے جانوروں کے جسم میں سوراخ کر دیتے ہیں اور اس جانور کو علم تک نہیں ہوتا ۔
اس کے بعد آتا ہے وہاں پر رہنے والا تیندوا۔ تیندوا ایک کالے دھبوں والا گوشت خور اور شیر نما جانور ہے۔ اس کو جیگوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی چار بڑی بلیو میں سے ہوتا ہے ۔ یہ وزن میں چیتے سے بھاری ہوتا ہے۔ اس کا سر بھی جیتے سے قدرے بڑا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی جنگلات میں ایسی ماقوف الفطرت حشرات اور جاندار پائے جاتے ہیں جن کا خیال کرنا بھی انسانوں کے لیے نہ ممکن یا مشکل ہے۔ یہ جنگل اپنے آپ میں ہی مثال ہے اور اس کی سب سے بڑی بات جو اس کو دنیا میں سب سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کی تقریبا بیس فیصد آکسیجن اسی جنگل سے حاصل ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس جنگل کو لنگ آف ارتھ بھی کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کہ اس جنگل میں درختوں کا گھیراؤ اتنا زیادہ ہے کہ بارش کا پانی بھی زمین پر پہنچنے میں دس منٹ لگا دیتا ہے ۔

No comments: